Skip to main content

پچیس سال پہلے 8000 بوسنیائی مسلمانوں کو کیسے قتل کیا گیا؟




پچیس سال پہلے 8000 بوسنیائی مسلمانوں کو کیسے قتل کیا گیا؟ 
11،جولائی 2020
بوسنیا میں دس دنوں کے اندر 8000 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا گيا۔

11 جولائی سنہ 1995 کو بوسنیائی سرب فوجیوں نے بوسنیا ہرزیگووینا میں سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کر لیا تھا۔۔
دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں ان کی فورسز نے منظم انداز میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا تھا۔

یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ کی سرزمین پر بدترین اجتماعی قتل و غارت تھی۔

بوسنیائی سرب یونٹس کے کمانڈر راتکو ملادچ کے فوجی قتلِ عام شروع کر رہے تھے جبکہ وہ خود خوفزدہ شہریوں کو بے خوف رہنے کا مشورہ دے رہے تھے۔
یہ سلسلہ 10 دنوں تک جاری رہا۔
ہلکے اسلحے سے لیس اقوامِ متحدہ کے امن فوجیوں نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے ’پناہ گاہ‘ قرار دیے گئے اس علاقے میں اپنے اردگرد جاری تشدد کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔

اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بعد میں کہا: سربرینیکا کا سانحہ ہمیشہ اقوامِ متحدہ کی تاریخ کے لیے 
ایک بھیانک خواب بنا رہے گا۔۔



یہ قتلِ عام بوسنیائی جنگ کے دوران بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھا۔ بوسنیائی جنگ سنہ 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے بکھرنے کے دوران ہونے والے کئی مسلح تنازعات میں سے ایک تھی۔

اس وقت سوشلسٹ ریپبلک آف بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کہلانے والی یہ ریاست یوگوسلاویہ کا حصہ تھی اور یہاں کئی اقوام آباد تھیں جن میں بوسنیائی مسلمان، قدامت پسند سرب اور کیتھولک کروٹ افراد شامل تھے۔

بعد میں بوسنیا ہرزیگووینا نے سنہ 1992 میں ایک ریفرینڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور اسے کچھ ہی عرصے بعد امریکی اور یورپی حکومتوں نے تسلیم کر لیا تھا۔

مگر بوسنیائی سرب آبادی نے ریفرینڈم کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس کے بعد جلد ہی سربیا کی حکومت کی حمایت یافتہ بوسنیائی سرب فورسز نے نئے تخلیق شدہ اس ملک پر حملہ کر دیا۔

انھوں نے اس علاقے سے بوسنیائی لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا تاکہ ’گریٹر سربیا‘ بنایا جا سکے۔ یہ پالیسی نسلی کشی کے مترادف تھی۔

بوسنیائی لوگ اکثریتی طور پر مسلمان ہوتے ہیں اور یہ بوسنیائی سلاو نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے قرونِ وسطیٰ کے دور میں ترک عثمانی حکمرانی کے عرصے میں اسلام قبول کیا تھا۔
اقوام متحدہ نے سربیائی فوج کی پیش رفت کے درمیان سربیائی مسلمانوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی
بوسنیائی سرب فوجیوں نے 1992 میں سربرینیکا پر قبضہ کر لیا تھا مگر فوراً بعد ہی اسے بوسنیائی فوج نے دوبارہ حاصل کر لیا۔ فریقوں کے درمیان جھڑپوں کے ساتھ شہر محاصرے میں چلا گیا۔

اپریل 1993 میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس علاقے کو ’کسی بھی مسلح حملے یا کسی دیگر دشمنانہ کارروائی سے محفوظ علاقہ‘ قرار دے دیا۔

مگر محاصرہ جاری رہا۔
 شہریوں اور اقوامِ متحدہ کے امن فوجیوں کے طور پر کام کر رہے ڈچ فوجیوں کی چھوٹی سی فورس کے لیے رسد ختم ہونی شروع ہوگئی۔ بوسنیائی رہائشی بھوک سے مرنے لگے۔

6جولائی سنہ 1995 کو بوسنیا کی سرب فورسز نے سریبرینیکا پر شدومد کے ساتھ حملہ کیا۔ اقوام متحدہ کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے یا پھر شہر میں پیچھے ہٹ گئی اور جب نیٹو کی افواج کو فضائی حملے کے لیے بلایا گیا تو اس نے سرب فورسز کی پیش رفت کو روکنے میں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی۔

یہ انکلیو پانچ دنوں میں ہی ان کے قبضے میں آ گیا۔ جنرل ملادچ دوسرے جرنیلوں کے ساتھ شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے اور گشت کیا۔ تقریبا 20 ہزار مہاجرین اقوام متحدہ کے مرکزی ڈچ کیمپ کی جانب فرار ہوگئے۔

اس کے دوسرے دن ہی قتل و غارت گری کا آغاز ہو گیا۔ جب مسلمان پناہ گزینوں نے شہر چھوڑنے کے لیے بسوں پر سوار ہوئے تو بوسنیا کی سرب فورسز نے مردوں اور لڑکوں کو بھیڑ سے علیحدہ کیا اور انھیں وہاں سے دور لے گئے تاکہ انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیں۔


ہزاروں افراد کو پھانسی دے دی گئی اور پھر بلڈوزروں کے ذریعہ ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دھکیل دیا گیا۔ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ بعض افراد کو تو زندہ ہی دفن کر دیا گیا تھا جبکہ کچھ بڑے بوڑھوں کو اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مارے جاتے ہوئے دیکھنا پڑا تھا۔

اس دوران خواتین اور لڑکیوں کو نقل مکانی کرنے والوں کی قطار سے نکال کر لے جایا گیا اور ان کا ریپ کیا گیا۔ شاہدین کا کہنا ہے کہ سڑکیں لاشوں سے بھری پڑی تھیں۔

کم سازوسامان والے ڈچ فوجی سرب فوجیوں کی جارحیت دیکھتے رہے اور انھوں نے کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے کیمپ میں پناہ گزین پانچ ہزار مسلمانوں کو ان کے حوالے کر دیا گیا۔

دی ہیگ میں واقعات کی تفتیش کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک ٹریبونل نے بعد میں اس قتل و غارت گری میں ڈھیر ساری منصوبہ بندی کی بات کی۔

ایک بوسنیائی سرب کے ایک کمانڈر کے خلاف فیصلے میں کہا گیا کہ 'فوجی عمر کے تمام مسلمان مردوں کو گرفتار کرنے کے لیے متحدہ طور پر کوشش کی گئی تھی۔' خواتین اور بچوں کو لے جانے والی بسوں میں باقاعدگی سے مردوں کی تلاشی کی گئی اور تلاش کرنے والے فوجی اکثر ایسے جوان لڑکوں اور بوڑھے مرد کو بھی لے جاتے تھے جو فوج میں خدمات انجام دینے کے اہل نہیں ہوتے تھے۔


 خاتون نسل کشی کے 25 سال بعد آج بھی متاثرین کی لاشیں اور اجتماعی قبریں ملتی ہیں۔

سنہ 2002 کی ایک رپورٹ میں نیدرلینڈز کی حکومت اور فوجی عہدیداروں پر ان ہلاکتوں کو روکنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے پیش نظر پوری حکومت نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ سنہ 2019 میں ملک کی عدالت عظمی نے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں نیدرلینڈ کو سریبرینیکا میں 350 افراد کی اموات کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

سنہ 2017 میں ہیگ میں اقوام متحدہ کے ایک ٹربیونل نے ملادچ کو نسل کشی اور دیگر مظالم کا مرتکب قرار دیا۔ کمانڈر ملادچ سنہ 1995 میں جنگ کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے اور سنہ 2011 میں شمالی سربیا میں اپنے کزن کے گھر میں ملنے سے پہلے کہیں نظر نہیں آئے تھے۔

سربیا نے جنگ کے خاتمے کے بعد وہاں رونما ہونے والے جرائم پر معذرت کر لی ہے لیکن پھر بھی اس نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Samsung J15 Prime Smartphone

Samsung 200MP camera with 6500mAh battery for Rs 1,499 : Samsung J15 Prime Smartphone Samsung's new J15 Prime 5G, which promises to combine high features with reasonable pricing, is set to upend the Indian smartphone industry. With its remarkable features and reasonable pricing, this new model seeks to compete with expensive smartphones, such as the iPhone. Let's explore the features of this fascinating new gadget.   Display Technology: Clarity Meets Smoothness Impressive technology is packed into every pixel of the Samsung J15 Prime 5G's elegant 5.2-inch QHD display. Its smooth 90Hz refresh rate and crisp 1080×1920 resolution let users to enjoy a flawless gaming experience and crystal-clear graphics. For further security, the screen has a built-in fingerprint sensor and is shielded by sturdy Gorilla Glass. This display, which supports 4K video playback, offers a high-end viewing experience that is competitive with expensive gadgets while still being useful for dail...

How to Use Two WhatsApp Accounts on a Single Phone

How to Use Two WhatsApp Accounts on a Single Phone: An Overview of Dual WhatsApp With everything being connected, WhatsApp has become a necessary tool for everyday communication. It makes it simple for us to stay in touch with friends, family, and coworkers. However, what if you don't want to carry two phones and you have two WhatsApp accounts—let's say for personal and professional use? You may utilize two WhatsApp accounts on a single phone, which is wonderful news. We'll walk you through the process in this article, so you can effortlessly handle both accounts. Approach 1: Making Use of WhatsApp Business (Advised) A specific app called WhatsApp corporate was created for communication in the corporate world. It can be utilized for personal accounts as well, though. Take these actions:   Get WhatsApp Business by downloading it here . Download WhatsApp Business from the app store on your device (the App Store for iOS or the Google Play Store for Android). Establi...

پی ڈی ایم کیا ہے؟؟؟

پی ڈی ایم " پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو تین مرحلے پر مشتمل حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے رہی ہے'. پی ڈی ایم کے ایکشن پلان کے مطابق یہ اتحاد رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں' احتجاجی مظاہروں' دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک "فیصلہ کن لانگ مارچ" کرے گا. مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں. اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں' تاہم جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے.۔۔۔