چین نے پہلی مرتبہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے مصنوعی سورج ایجاد کر لیا ہے'. اسے کلین انرجی سورس کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس کی افادیت اصل سورج سے کسی طور بھی کم نہیں ہوگی. مصنوعی سورج ایجاد کرنے کا اصل مقصد سورج کی طرح قدرتی وقوع پذیری میں اضافہ کرنا ہے۔جیسا کہ سورج کی روشنی میں ہائیڈروجن اور ڈیوٹیریم گیسیں ایندھن کا کام دیتی ہیں اسی طرح اس سورج میں بھی یہ عمل
دوہرایا جائے گا۔
ایچ ایل2ایم توک ماک ری ایکٹر چین کا سب سے بڑا اور جدید ترین نیوکلیئر فیوژن ریسرچ ڈیوائس ہے.. چین کا یہ ایٹمی ری ایکٹر سیچوان صوبے میں واقع ہے۔اس ری ایکٹر کو مصنوعی سورج کا نام دیا گیا ہے ا ور یہ گزشتہ برس مکمل ہوا تھا..
اس ایٹمی ری ایکٹر میں 150ملین ڈگری تک گرم ہونے کی اہلیت موجود ہے کیونکہ یہ ہاٹ پلازمہ کو فیوژ کرنے کے لیے میگنیٹک فیلڈ کے تحت کام کرتا ہے۔
اس کی یہ حرارت اصل سورج سے بھی دس گنا زیادہ ہے۔اس طرح کی نیوکلیئر فیوژن انرجی کی پیداوار چین صرف اپنے اسٹریٹیجک انرجی کی ضرورت پوری کرنے کےلیے نہیں کررہا بلکہ آنے والے وقت میں یہ چین کے ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ معیشت کی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کرے گا..
دراصل فرانس میں موجود انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ری ایکٹر کی ایکسٹینشن کے طور پر چین نے اس پروگرام کو لانچ کیا ہے کیونکہ فرانس کے پراجیکٹ میں بھی چین ہی حصہ دار ہے۔
فرانس میں تعمیر ہونے والا انٹرنیشنل نیوکلیئر ری ایکٹر 35ممالک کی شراکت سے تیار کیا جا رہا ہے اس نے 2025میں مکمل ہونا ہے اور اس پر تقریباً24بلین ڈالر کی لاگت آ رہی ہے۔تاہم چین اپنے ملک میں اس بڑے مصنوعی سورج کے مقابلے اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے گرم سورج تیار کر رہا ہے تاکہ انرجی کی قلت پر قابو پایا جا سکے۔تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اتنی زیادہ انرجی حاصل کرنے کے ساتھ چین نیوکلیئر پاور کے ساتھ دفاعی قوت میں کس قدر مضبوط ہو جاتا ہے اور دیگر سپرپاورز اور ترقی یافتہ ممالک پر اس کا کیا اثر ہو گا'..۔
Comments
Post a Comment